Print version

Print version

Print version

Question ID  
Mujtahid Name Ahle tashih 
Question Ahle tasheh namaz parte waqt sar ke niche tiki q rakhte heen  
Answer Sajdah zameen par or on cheezo per kerna zarori hay k jo khae or pehni nah jaati hoon or zameen se ugti hoon, maslan lakrhi, darakhtoon k patto ghaas or bhosa per sajda kerna sahi hay. (Ayatullah Sistani(d.b),Tauzee hul masail, maslah # 1063) Sajday k liay khaak e shifa sub cheezo se behter hay, os k baad matti, matti k baad pather or pather k baad ghaas hay.(Ayatullah Sistani(d.b),Tauzee hul masail, maslah # 1070). اب ہم چند ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں جو اس بارے میں پیغمبراسلامۖ کی سیرت کو بیان کرتی ہیں یہ حدیثیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتۖ خاک پر اور زمین سے اگنے والی بعض چیزوں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ فرماتے تھے اور آج شیعہ بھی اسی چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں بہت سے مسلمان محدثین نے اپنی صحاح ومسانید میں آنحضرتۖ سے نقل کیا ہے کہ آپۖ نے زمین کو اپنے لئے سجدہ کے عنوان سے پہچنوایا تھا آنحضرتۖ فرماتے ہیں: 'جعلت لی الأرض مسجدًا و طھورًا'(سنن بیہقی جلد١ ص ٢١٢(باب التیمم بالصعید الطیب)صحیح بخاری جلد١ کتاب الصلوة ص٩١ اقتضائ الصراط المستقیم (ابن تیمیہ) ص ٣٣٢(. زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے. اس حدیث میں لفظ 'جعلت 'قانون گزاری کے معنی میں ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ دین اسلام کی پیروی کرنے والوں کے لئے ایک حکم الہی ہے اس حدیث سے خاک، پتھر اور ہر اس چیز پر سجدے کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جس کو زمین کہا جاسکے. بعض دوسری روایات اس نکتے پردلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامۖ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانیوں کو خاک پر رکھا کریں جیسا کہ زوجہ پیغمبرۖ ام سلمہ آنحضرتۖ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: 'ترِّب وجھک للّہ'(کنزالعمال جلد٧ ص ٤٦٥ حدیث نمبر ١٩٨٠٩ کتاب الصلوة السجود و مایتعلق بہ.) اللہ کے لئے اپنے چہرے کو خاک پر رکھو. اس حدیث میں 'ترب' کے لفظ سے دو نکتے سمجھ میں آتے ہیں ایک یہ ہے کہ انسان کو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھنا چاہیے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ 'ترب' صیغہ امر ہے لہذا خاک پر سجدہ کرنا واجب ہے. ٣)خود آنحضرتۖ کا عمل بھی خاک پر سجدے کے صحیح ہونے کا بہترین گواہ ہے وائل بن حجر کہتے ہیں: 'رأیت النب ۖ اِذا سجد وضع جبھتہ و أنفہ علیٰ الأرض'((٢) احکام القرآن (جصاص حنفی جلد٣ ص٢٠٩ باب السجود علی الوجہ) میں نے پیغمبر ۖکو دیکھا ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھتے تھے. انس بن مالک اور ابن عباس اور آپۖ کی ازواج جیسے عائشہ اور ام سلمہ اور بہت سے محدثین نے اس طرح روایت کی ہے: 'کان رسول اللّہ ۖ یصل علیٰ الخمرة'(سنن بیہقی جلد٢ ص٤٢١ کتاب الصلوة علی الخمرہ.) رسول خدا ۖ چٹائی پر نماز پڑھتے تھے (ایسی چٹائی جوکہ کھجور کی پتیوں سے تیار کی جاتی تھی) پیغمبر اکرمۖ کے صحابی ابوسعید کہتے ہیں کہ: 'دخلت علیٰ رسول اللّہ ۖ وھو یصل علیٰ حصیر'(سنن بیہقی جلد٢ ص٤٢١ کتاب الصلوة علی الخمرہ.) میں رسول خداۖ کی خدمت میں حاضر ہواتو اس وقت آپ چٹائی پر نماز پڑھ رہے تھے . یہ بات شیعوں کے نظرئیے کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہے کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ زمین سے اگنے والی ان اشیاء پر سجدہ صحیح ہے جو نہ تو کھائی جاتی ہوں اور نہ ہی پہنی جاتی ہوں. ٤)پیغمبر اسلامۖ کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اور ان کے اقوال بھی اس بارے میں آنحضرت کی سنت کو بیان کرتے ہیں :جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں : 'کنت أصل الظہر مع رسول اللّہ ۖ فأخذ قبضة من الحصاء لتبرد ف کف أضعھا لجبھت أسجد علیھا لشدة الحرّ'(سنن بیہقی جلد١ ص٤٣٩کتاب الصلوة باب ماروی فی التعجیل بھا فی شدة الحر.) جب میں رسول اللہ ۖ کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا تو اپنی مٹھی میں سنگ ریزے اٹھا لیتا تھا تاکہ وہ میرے ہاتھ میں ٹھنڈے ہو جائیں اور انہیں سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کے نیچے رکھ سکوں کیونکہ گرمی بہت شدید تھی. اور پھر خود راوی نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ اگر اپنے کپڑوں پر سجدہ کرنا جائز ہوتا تویہ سنگریزوں کے اٹھانے اور انہیں سنبھالنے سے آسان تھا . ابن سعد (وفات ٢٠٩ ھ) اپنی کتاب 'الطبقات الکبری' میں یوں لکھتے ہیں: 'کان مسروق اِذا خرج یخرج بلبنةٍ یسجد علیھا ف السفینة'('الطبقات الکبری'جلد ٦ ص٧٩ طبع بیروت مسروق بن اجدع کے حالات کو بیان کرتے ہوئے.) مسروق ابن اجدع جس وقت سفر کے لئے نکلتے تھے تواپنے ساتھ ایک کچی اینٹ رکھ لیتے تھے تاکہ کشتی میں اس پر سجدہ کرسکیں . مسروق بن اجدع پیغمبرۖ کے تابعین اورابن مسعود کے اصحاب میں سے تھے، کتاب 'الطبقات الکبری' کے مؤلف ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: ' وہ پیغمبر اکرمۖ کے بعد اہل کوفہ میں سے طبقہ اول کے لوگوں میں سے تھے اور انہوں نے ابوبکر ، عمر، عثمان، علی اور عبداللہ بن مسعود سے روایتیں نقل کی ہیں .' اس کلام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مٹی کی سجدہ گاہ کا ہمراہ رکھنا ہرگز شرک یابدعت نہیں ہے کیونکہ صحابۂ کرام بھی ایسا کرتے تھے .( اس سلسلے میں مزید شواہد کے لئے علامہ امینی کی کتاب 'سیرتنا' کی طرف مراجعہ فرمائیں.) نافع کہتے ہیں : ' ان ابن عمرکان اذا سجد و علیہ العمامة یرفعھا حتیٰ یضع جبھتہ بالأرض'(سنن بیہقی جلد٢ ص١٠٥( مطبوعہ حیدرآباد دکن) کتاب الصلوة باب الکشف عن السجدة فی السجود) عبد اللہ بن عمر سجدہ کرتے وقت اپنے عمامے کو اوپر کرلیا کرتے تھے تاکہ اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ سکیں. رزین کہتے ہیں: 'کتب اِلّ علّ بن عبداللّہ بن عباس أن أبعث لَّ بلوح من أحجار المروة أسجد علیھا '(ازرقی ،اخبار مکہ جلد ٣ ص١٥١) علی بن عبداللہ بن عباس نے مجھے لکھا کہ مروہ پہاڑ کے ایک پتھر کی تختی میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس پر سجدہ کرسکوں. ٥)دوسری طرف سے مسلمان محدثین نے کچھ روایتیں نقل کی ہیں جن کے مطابق پیغمبر اسلام ۖ نے ایسے افراد کو ٹوکا ہے جو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی اور زمین کے درمیان عمامے کے کپڑے کو حائل کرلیا کرتے تھے . صالح سبائی کہتے ہیں : 'اِنّ رسول اللّہ ۖ رأی رجلاً یسجد علیٰ جنبہ و قد اعتم علیٰ جبھتہ فحسر رسول اللّہ ۖ علیٰ جبھتہ'(سنن بیہقی جلد٢ ص ١٠٥) رسول خدا ۖ نے اپنے پاس ایک ایسے شخص کو سجدہ کرتے دیکھا جس نے اپنی پیشانی پر عمامہ باندھ رکھا تھا تو آنحضرتۖ نے اس کے عمامے کو ہٹا دیا . عیاض بن عبداللہ قرشی کہتے ہیں: 'رأی رسول اللّہ ۖ رجلاً یسجد علیٰ کور عمامتہ فأوما ٔ بیدہ ارفع عمامتک وأومأ الیٰ جبھتہ'(سنن بیہقی جلد٢ ص ١٠٥) رسول خدا ۖ نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے عمامے کے ایک گوشے پر سجدہ کررہا تھا تو آپ نے اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے عمامے کو اوپر اٹھاؤ. ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول خداۖ کے زمانے میں زمین پرسجدہ کرنا ایک لازمی امر تھا اور جب بھی کوئی شخص عمامے پر سجدہ کرتا تو آنحضرتۖ اسے اس کام سے روکتے تھے . شیعوں کے ائمہ اطہار ٪ جوکہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن مجید سے کبھی جدا نہ ہوںگے اور دوسری طرف وہ پیغمبر اکرمۖ کے اہل بیت ہیںانہوں نے زمین پر سجدہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں: 'السجود علیٰ الأرض فریضة و علیٰ الخمرة سنة'(وسائل الشیعہ جلد٣ ص٥٩٣ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ٧.) زمین پر سجدہ کرنا حکم الہی ہے اور چٹائی پرسجدہ سنت پیغمبر ۖ ہے. اور ایک مقام پر فرماتے ہیں : 'السجود لایجوز اِلاعلیٰ الأرض أو علیٰ ما أنبتت الأرض اِلا ما أکل أو لبس'(وسائل الشیعہ جلد٣ ص٥٩١ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ١.) سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے سوائے زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء پر لیکن کھائی اور پہننے والی اشیاء پر سجدہ نہیں ہوسکتا. نتیجہ:گزشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف اہل بیت ٪ کی روایات بلکہ رسول خداۖ کی سنت اور آنحضرتۖ کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اس بات کی گواہ ہیں کہ سجدہ صرف زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء (سوائے کھانے اور پہنے جانے والی اشیاء کے) پر ہی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بقیہ دوسری چیزوں پر سجدے کے جائز ہونے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے لہذا اس احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نجات اور کامیابی کی راہ صرف یہ ہے کہ ان چیزوں پر سجدہ کیا جائے جن پر سب کا اتفاق ہے آخر میں ہم اس نکتے کی یاد آوری ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ بحث صرف ایک فقہی مسئلہ ہے اور اس قسم کے جزئی مسائل کے بارے میں مسلمان فقہاء کے درمیان بہت اختلافات ہیں لیکن اس قسم کے اختلافات کوکسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہیے کیونکہ اس قسم کے فقہی اختلافات اہل سنت کے چار فرقوں کے درمیان فراوان ہیں مثال کے طورپر مالکی کہتے ہیں کہ ناک کو سجدہ گاہ پر رکھنا مستحب ہے جب کہ حنبلی کہتے ہیں کہ یہ عمل واجب ہے اور اسے چھوڑنے کی صورت میں سجدہ باطل ہوجائے گا۔(الفقہ علی المذاہب الاربعة جلد١ ص ١٦١ طبع مصر کتاب الصلوة ، بحث سجود.)  

Answered By Quran-o-Itrat Academy
Topic  

View Other Questions.